سوارہ پشتون معاشرے کی ایک قبیح روایت--- تحریر:سفیرخان درانی

سوارہ پشتون معاشرے کی  ایک قبیح روایت

تحریر:سفیرخان درانی


پشتون وہ عجیب قوم ہے جو بناء کسی تحقیق کے غیرت کے نام پر اپنی پیاری بیٹی یا بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور وہ بھی ایسے کہ جس سے پوری انسانیت فنا مانگتا ہے صرف چند لمحوں کی جزباتی فیصلے سے پھر وہ ساری عمر پیغور کا کالا دھبہ اپنے ذات پر چھوڑ جاتا ہے حالانکہ اگر ہم ہمارے  پیارے دین اسلام کی تعلیمات کو دیکھ لیتے ہیں تواسلام مرد اور عورتوں دونوں کو یکساں حقوق کی بات کرتا ہے۔جس طرح ہم انسان اس فانی دنیا میں کوئی کتاب وغیرہ لکھتے ہیں تو اس کو ایک عنوان دیتے ہیں بلکل اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قران کریم کو بھی ایک عنوان سے نوازا ہے اور وہ ہے انسانیت۔قران کریم جو کہ ہماری ایمان کا لازمی حصہ ہے جس میں ہمارے تمام مشکلات کا حل موجود ہے لیکن کوئی ہے کہ اللہ کی اس مقدس کتاب پر مکمل عمل پیرا ہوں۔جہاں تک پشتونوں کی بات ہے اگرمیں یہ کہوں تو بے جاء نہیں ہوگا  کہ بدقسمتی سے ہم پشتون لوگ  تو صرف وہاں تک اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہیں جہاں تک اسلام ہماری پشتو اور غیرت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ جس کی  بنیادی وجہ تعلیم کی کمی تصور کیا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں  کئی ایک مسائل پراسلام تو معاف کر دیتا ہے لیکن ہماری پشتو اور غیرت بیچ میں خلل ڈال کر ہم کو گناہ پر گناہ سرزد کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ایسے مسائل میں ایک مسئلہ سوارہ بھی ہے۔جو ہمارے پشتون معاشرے کی روایت  گردانہ جاتا ہے۔ہمارے معاشرےمیں اگر کسی کا بیٹا اپنی خواہش کےمطابق کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے چاہے وہ اپنوں میں ہوں یااپنے رشتہ داروں کے علاوہ کسی پرایا خاندان میں ہوں تو لڑکا آہستہ اپنی ماں کی کان میں کہہ دیتا ہے کہ امی میں فلاح لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں جواب میں امی کہتی ہے ٹھیک ہے بیٹا آج آپ کے ابو گھرآکے میں بات کرلوں گی۔باپ جب گھر آکے اور بیٹے کی اس بات سے خبر ہوتا ہے تو ایک قہقہ لگا کر ہنستا ہے کہ میرا بیٹا جوان ہوگیا ہے اور کل کو اُس لڑکی کے گھر جاکر اُنکے والدین سے اپنے بیٹے کیلئے رشتے کا ہاتھ مانگتا ہے لیکن اگر بلکل اسی طرز پر ایک لڑکی اپنی ماں کے کان میں یہ کہتی ہے کہ امی میں فلاح لڑکے سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو پہلے تو ماں  اسے ٹھیک ڈانٹ لیتی ہے اور پھر خبردار کردیتی ہے  کہ دوبارہ ایسے الفاظ مُنہ پر مت لانا ورنہ اگر آپ کے بھائی کو پتہ چلا تو ٹھیک ٹھاک مسئلہ بن جائے گا وہ بھائی جو اپنے لیے تو مرضی کے مطابق لڑکی سے شادی رچا رہا تھا لیکن اپنی بہن کی جائز بات پر غصہ میں آکر بندوق اٹھا لیتا ہے اور بناء کسی تحقیق کے غیرت کے نام پہلے  اپنی ہی بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے اور پھر اُس لڑکے کو جس سے اُس کی بہن شادی کرنا چاہ رہی تھی اور پھر جب ہوش میں آتا ہے اور صلح کرنے بیٹھ جاتا ہے تو موت کے بدلے اپنی ننھی منھی چھوٹی بہن کو سوارہ میں مقتول کے خاندان کو حوالے کرلیتا ہے جس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ پشتو اور غیرت ہے کیا چیز ۔اور ساری عمر اپنے بھائی کی خطاء کی سزاصبراور برداشت سے کاٹتی رہتی ہے اور بھائی کے نام


اب پچتھائے کیاکہ جب چڑیاں چھک گئی کھیت۔



Comments

Popular posts from this blog

What is the function of a human tongue?

State of Human Rights in 2014-Pakistan

(سواره) پښتون نن هم د سوارې په شکل کې خپلې لونړه خوييندې ژوندۍ ښخوي