تیل کا کھیل

تیل کا کھیل
[تحریر: لال خان]
عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں مسلسل کمی کے باوجود عوام کو وہ ریلیف نہیں مل سکا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ پاکستان میں تیل کی قیمت میں ہونے والی کمی، عالمی منڈی کی کمی کے 50 فیصد سے بھی کم ہے۔ گیس کی قیمت میں اضافے کے لئے پہلے ہی پر تولے جارہے ہیں۔ 40 فیصد بجلی فرنس آئل سے پیدا ہوتی ہے لیکن وزارت خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھے گئے تازہ خط میں بجلی کے نرخ بڑھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ان یقین دہانیوں کے بعد ہی آئی ایم ایف نے قرض کی نئی قسط جاری کی ہے جس کا زیادہ تر حصہ پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی کی نذر ہو کر سامراجی بینکوں کی تجوریوں میں واپس چلا جائے گا۔ حکمران طبقہ پے درپے ہونے والے اندوہناک واقعات اور سانحات کو بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے۔ سانحہ پشاور کی آڑ میں عوام پر اقتصادی اور ریاستی جبر میں مزید اضافے کی تیاری کی جارہی ہے۔
سرمایہ دارانہ معیشت دانوں کے عمومی تناظر کے برعکس تیل کی قیمت میں کمی عالمی معیشت کو بحران سے نہیں نکال پائے گی۔ آئی ایم ایف کی کرسٹین لیگارڈ کے مطابق تیل کی قیمت میں کمی ’’عالمی معیشت کے لئے اچھی خبر ہے۔ ‘‘ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ یہ آئی ایم ایف ہی ہے جو پاکستان سمیت کئی دوسرے ممالک میں سستے تیل سے ہونے والی بچت کو صارفین تک منتقل نہیں ہونے دے رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے عالمی معیشت کی ’’بحالی‘‘ کی باتیں بھی بے بنیاد ثابت ہوئی ہیں۔ عالمی سطح پر معاشی جمود سرمایہ داری کے بحران میں ایک نئے مرحلے کی حیثیت رکھتا ہے۔
درحقیقت تیل کی قیمتوں میں کمی کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ شیل آئل (Shale Oil) کی نئی صنعت کی وجہ سے ایک طرف اگر تیل کی رسد بڑھی ہے تو دوسری طرف معاشی بحران کی وجہ سے طلب میں گراوٹ آئی ہے۔ تاہم معیشت کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کی آپسی چپقلش کا بھی اہم کردار ہے۔ شیل آئل کی وجہ سے عالمی منڈی میں امریکی تیل کا تناسب بڑھا ہے اور توانائی کے شعبے میں سعودی عرب پر امریکہ کا انحصار نسبتاً کم ہوا ہے۔ یہ صورتحال سعودی شاہی خاندان کے لئے قابل قبول نہیں ہے لہٰذا انہوں نے تیل کی پیداوار میں کمی سے انکار کیا ہے تاکہ تیل کی قیمت میں گراوٹ سے شیل آئل کی نومولود صنعت کو ناکام بنا یا جاسکے۔ قیمت کی جنگ (Price War) میں فی الوقت سعودی عرب کا پلڑا بھاری ہے۔
قیمت کی اس جنگ کے اثرات آئل انڈسٹری پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ اوسز پٹرولیم اور گڈرچ پٹرولیم جیسی مقروض کمپنیوں نے 2015ء کی سرمایہ کاری میں بڑی کمی کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح کونوکو فلپس نے اگلے سال اپنی سرمایہ کاری 20 فیصد کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’’انرجی ایسپکٹ‘‘ نامی مشاورتی ادارے کے مطابق موجودہ قیمتوں پر تیل کی 12 فیصد عالمی پیداوار غیر منافع بخش ہوگی۔ فنانشل ٹائمز نے 16 دسمبر کو انتباہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’خام تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل تک گر جانے سے تیل کی پیداوار میں ایک ہزار ارب ڈالر کی متوقع سرمایہ کاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔ پچھلے چھ ماہ میں ایکزون موبل کے شیئر15 فیصد گرے ہیں۔ اسی عرصے کے دوران شیورون اور کونوکو فلپس کے شیئرز میں بالترتیب 21 فیصد اور 26 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔‘‘

Comments

Popular posts from this blog

What is the function of a human tongue?

State of Human Rights in 2014-Pakistan

(سواره) پښتون نن هم د سوارې په شکل کې خپلې لونړه خوييندې ژوندۍ ښخوي